شریعت مطہرہ نے زمام نکاح اسی کے ہاتھ میں سونپی ہے، اس لئے ایک شوہر کا اپنی بیوی سے کیسا تعلق ہونا چاہیے؟ اور شوہر کو اپنی رفیقہ حیات کے ساتھ کیسا طرز عمل اختیار کرنا چاہیے؟ اس کے لئے سیرت طیبہ سے سبق لینے اور اس کو اپنی عملی زندگی میںبرتنے کی ازحد ضرورت ہے۔
گھریلو اور خانگی زندگی بڑی اہمیت کی حامل ہے، زندگی کا یہ شعبہ سکون بخش اور نشاط انگیز ہوتو یہ نہ صرف ایک گھر کے لئے نافع اور سودمند ثابت ہوتا ہے بلکہ اس سے نووارد مہمان کی صحیح اور ٹھوس تربیت ہوتی ہے اور اس کے اخلاق و رحجانات کی تعمیر بھی ہوتی ہے، اور خاندانی نظام کی بقاء اور استحکام بھی اس پر موقوف ہے اور اگر خدانخواستہ زندگی کا یہ پہلو کج روی اور ناہمواری کا شکارہو، افتراق و انتشار اور بغض و عناد نے زندگی کے اس پہلو کو تاریک بنادیا ہوتو ایک طرف اس سے خاندانی نظام کا شیرازہ بکھر کر رہ جاتا ہے تو دوسری طرف نسل نو بھی ایسے جہنم زار ماحول میں صحیح اور ٹھوس تربیت سے محروم ہوتی ہے، جس کی وجہ سے وہ اخلاق و کردار کے لحاظ سے قطعا غیر ذمہ دار ہوتی ہے اور معاشرہ کا عضو معطل اور ناکارہ جز و ثابت ہوتی ہے۔
نکاح ایک پائیدار رشتہ
آپﷺ کی سیرت طیبہ پوری انسانیت کے لئے مشعل راہ اور رفیق خضر ہے، زندگی کے ہر موڑ پر سیرت طیبہ انسان کی رہنمائی کرتی ہے، اور زندگی کے تاریک گوشوں کو اپنی ضوفشانی سے تابناک بنادیتی ہے، میاں بیوی کا رشتہ ایک پاکیزہ اور مقدس رشتہ ہے، شریعت کی منشا یہ ہے کہ جب زن و شو کے مابین یہ رشتہ قائم ہو جائے تو تادم حیات باقی رہے اور اس پر محبت و خلوص کا پختہ رنگ بیٹھ جائے ظاہر ہے کہ یہ چیز اسی وقت وجود پذیر ہوسکتی ہے جب زوجین میں سے ہر ایک اپنے اپنے حقوق ادا کرے، اور اپنے رفیق حیات کے ساتھ خوش گوار اور دوستانہ تعلقات کو فروغ دے، تاہم یہ بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اس رشتہ کی بقاء اور استحکام میں شوہر کا غیر معمولی کردار ہوتا ہے، اور شریعت مطہرہ نے زمام نکاح اسی کے ہاتھ میں سونپی ہے، اس لئے ایک شوہر کا اپنی بیوی سے کیسا تعلق ہونا چاہیے؟ اور شوہر کو اپنی رفیقہ حیات کے ساتھ کیسا طرز عمل اختیار کرنا چاہیے؟ اس کے لئے سیرت طیبہ سے سبق لینے اور اس کو اپنی عملی زندگی میںبرتنے کی ازحد ضرورت ہے۔
بیوی کے کاموں میں دلچسپی
آپﷺ کے کاندھوں پر نبوت کی بھاری ذمہ داریاں عائد کی گئی تھیں جس کی وجہ سے آپﷺ کی خارجی و بیرونی زندگی بہت ہی مصروف اور صبر آزما تھی لیکن بایں ہمہ آپﷺ کی سنت مبارکہ یہ تھی کہ جب گھر تشریف لے جاتے تو کبھی آٹا گوندھ دیتے تو کبھی گھر کی دیگر ضروریات پوری کردیتے، حضرت عائشہؓ سے آپﷺ کے گھریلو معمولات کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: اپنی بکری کا دودھ دوہتے، اپنے کپڑے سی لیتے، اپنی خدمت خود کرلیتے، اپنے جوتے سی لیتے اور وہ تمام کام کرتے جو مرد اپنے گھروں میں کرتے ہیں، وہ اپنے گھر والوں کی خدمت میں لگے ہوتے جب نماز کا وقت ہوتا تو چھوڑ کر (مسجد )تشریف لے جاتے۔ (مسند احمد)
آپﷺ کے طرز عمل سے ایک کامیاب اور خوش گوار زندگی کا اصول معلوم ہوتا ہے، یہ ٹھیک ہے کہ مرد و عورت کے مابین تقسیم کار ہے، مرد نے بیرونی اور خارجی امور کی ذمہ داری لے رکھی ہے، اور عورت نے گھریلو اور خانگی امور کی ذمہ داری لے رکھی ہے تاہم اس رشتہ کو امن و محبت کا گہوارہ بنانے کے لئے شوہر پر یہ اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عورت کے کاموں میں دلچسپی لے، اور گھریلو کاموں میں اس کا ہاتھ بٹائے، اور گھریلو امور کے متعلق مشورے دے۔
عورت کی رائے کا احترام
آپﷺ کی ازدواجی زندگی کا ایک نمایاں اور واضح پہلو یہ بھی تھا کہ آپﷺ ازواج مطہرات کی رائے کا احترام کرتے تھے، صلح حدیبیہ کے موقع پر جب کفار مکہ نے آپﷺ اور تقریباً پندرہ سو مسلمانوں کو عمرہ کرنے سے روک دیا اور آپﷺ نے غیر معمولی فراست اور بصیرت و دور اندیشی سے کفارمکہ سے بظاہر دب کر صلح کرلی، صلح نامہ تحریر ہونے کے بعد آپﷺ نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا: کھڑے ہو جائو اور اپنے جانوروں کو ذبح کرو، لیکن تین مرتبہ کہنے کے بعد بھی صحابہ کرامؓ جو طبعی طور پر رنجیدہ اور کبیدہ خاطر تھے اور غم سے نڈھال تھے اس کے لیے کھڑے نہ ہوئے تو آپﷺ حضرت ام سلمہؓ کے پاس تشریف لائے اورصحابہ کرامؓ کے اس طرز عمل کا تذکرہ کیا، ام سلمہؓ جو عقلمند اور مزاج فہم تھیں انہوں نے کہا: آپ ان سے کچھ نہ کہیے، آپ کھڑے ہوکر اپنا اونٹ ذبح کردیجئے اور حلق کرالیجئے، آپﷺ نے ان کی رائے قبول کی چنانچہ آپ باہر تشریف لائے اپنی قربانی کی، اور حلق کرایا، آپﷺ کو دیکھ کر صحابہ کرامؓ نے بھی قربانیاں کیں اور حلق کرایا، ہجوم کا یہ عالم تھا کہ ہر ایک دوسرے پر ٹوٹ رہا تھا اور عجلت اس قدر تھی کہ ہر شخص حجامت بنانے کی خدمت انجام دے رہا تھا (بخاری)۔ اس سےمعلوم ہوتا ہے کہ اہم امورمیں عورت سےرائے لینی چاہیے اور رائے پسند آنے کی صورت میں اس پر عمل بھی کرنا چاہیے۔
گھر والوں کے دین کی فکر
آپﷺ کی ازدواجی زندگی کا ایک تابناک اور لائق تقلید پہلو یہ بھی ہے کہ آپﷺ اپنے اہل خانہ کے دین کی فکر کرتے تھے اور ان کو دین دار بنانے کا اہتمام کرتے تھے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: آپﷺ کا معمول تھا کہ جب کبھی گھر میں تشریف لاتے تو قدرے بلند آواز سے یہ کلمات دہراتے: اگر ابن آدم کے پاس مال کے دو بھرے ہوئے میدان ہوں تو بھی آدمی تیسرے میدان کی حرص کرے گا۔ اس کے حرص کے منہ کو صرف قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے۔ (شعب الایمان، حدیث ۹۷۹۹)۔ آپﷺ کے ان کلمات کو بار بار دہرانے کا مقصد یہ تھا کہ دنیا کی بے ثباتی اور فانی ہونے کا یقین اہل بیتؓ کے دلوں میں بیٹھ جائے، آج دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ کسی حد تک مرد حضرات نماز کے پابند ہوتے ہیں تلاوت قرآن اور نوافل کا اہتمام کرتے ہیں لیکن ان کے گھر میں دین کا ماحول نہیں ہوتا ہے ان کے بیوی اور بچے فرائض و واجبات سے غفلت اور سستی برتتے ہیں، آپﷺ کی سیرت طیبہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم اپنے گھر والوں کو دین دار بنانے/ کا اہتمام کریں ان کے اندر احکامِ خداوندی پر چلنے کی عادت ڈالیں۔
بیوی سے اظہار محبت
بیوی سے محبت و تعلق کا اظہار بھی اس رشتہ کی پختگی میں غیر معمولی اور اہم کردار ادا کرتا ہے، آپﷺ اپنی ازواج مطہرات سے وقتاً فوقتاً محبت کا اظہار کرتے تھے، حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں ایک مرتبہ میں پانی پی رہی تھی اتنے میں آپﷺ گھر تشریف لائے، اور فرمایا: عائشہ! تھوڑا پانی بچانا، میں نے پانی بچادیا،(باقی صفحہ نمبر52 پر )
(بقیہ:میاں بیوی کے تعلقات اسوۂ نبویؐ کی روشنی میں)
آپﷺ قریب آئے اور پوچھا عائشہ! تم نے اپنے ہونٹ کہاں لگائے تھے؟ حضرت عائشہؓ کے بتلانے پر آپﷺ نے گلاس کے اسی حصہ پر ہونٹ مبارک لگا کر پانی نوش فرمایا (نسائی) ایک روایت میں حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: میں حالت حیض میں کھانے کے دوران ہڈی چوستی تو آپﷺ جہاں سے میں نے اس ہڈی کو چوسا ہوتا وہاں ہونٹ مبارک رکھ کر ہڈی کو چوستے۔ (مسند ابویعلی الموصلی، حدیث ۴۷۷۱)
بیوی کے اعزاء و اقارب کا خیال: بیوی کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ میرا شوہر میرے رشتہ داروں کے ساتھ اچھائی سے پیش آئے اور ان کے ساتھ بہتر سلوک کرے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: مجھے حضرت خدیجہؓ پر غیرت آتی تھی اور وجہ اس کی یہ تھی آپﷺ کثرت سے ان کا ذکر کیا کرتے تھے، کبھی بکری ذبح کرتے تو اس کا گوشت حضرت خدیجہؓ کی سہیلیوں میں بھیجا کرتے تھے۔ (بخاری) اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ بیوی کے رشتہ داروں کے ساتھ خیر خواہی اور حسن سلوک کرے اور ان کے لئے وقتاً فوقتاً ہدایا بھیجتا رہا کرے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں